Tuesday, 31 January 2017

غوث اعظم


کرامات غوث اعظم رضی اللہ عنہ تحریر پیرمحمدامیرسلطان قادری چشتی آف اوگالی شریف خوشاب
کرامات غوث اعظم رضی اللہ عنہ تحریر پیرمحمدامیرسلطان قادری چشتی آف اوگالی شریف خوشاب
خانقاہ میں ایک باپردہ خاتون اپنے منے کی لاش چادر میں لپٹائے، سینے سے چمٹائے زار و قطار رو رہی تھی۔ اتنے میں ایک “مدنی منا“ دوڑتا ہوا آتا ہے اور ہمدردانہ لہجے میں اس خاتوں سے رونے کا سبب دریافت کرتا ہے۔ وہ روتے ہوئے کہتی ہے، بیٹا! میرا شوہر اپنے لخت جگر کے دیدار کی حسرت لئے دنیا سے رخصت ہو گیا ہے۔ یہ بچہ اس وقت پیٹ میں تھا اور اب یہی اپنے باپ کی نشانی اور میری زندگانی کا سرمایہ تھا، یہ بیمار ہو گیا، میں اسے اس خانقاہ میں دم کروانے لا رہی تھی کہ راستے میں اس نے دم توڑ دیا ہے۔ میں پھر بھی بڑی امید لے کر یہاں حاضر ہو گئی کہ اس خانقاہ والے بزرگ کی ولایت کی ہر طرف دھوم ہے اور ان کی نگاہ کرم سے اب بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے مگر وہ مجھے صبر کی تلقین کرکے اندر تشریف لے جا چکے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ خاتون پھر رونے لگی۔ “مدنی منے کا دل پگھل گیا اور اس کی رحمت بھری زبان پر یہ الفاظ کھیلنے لگے، محترمہ ! آپ کا منا مرا ہوا نہیں بلکہ زندہ ہے، دیکھو تو سہی وہ حرکت کر رہا ہے!“ دکھیاری ماں نے بے تابی کے ساتھ اپنے منے کی لاش پر سے کپڑا اٹھا کر دیکھا تو وہ سچ مچ زندہ تھا اور ہاتھ پیر ہلا کر کھیل رہا تھا۔ اتنے میں خانقاہ والے بزرگ اندر سے واپش تشریف لائے، بچے کو زندہ دیکھ کر ساری بات سمجھ گئے اور لاٹھی اٹھا کر یہ کہتے ہوئے “مدنی منے“ کی طرف لپکے کہ تونے ابھی سے تقدیر خداوندی عزوجل کے سربستہ راز کھولنے شروع کر دئیے ہیں! “مدنی منا“ وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا اور وہ بزرگ اس کے پیچھے دوڑنے لگے۔ “مدنی منا“ یکایک قبرستان کی طرف مڑا اور بلند آواز سے پکارنے لگا، اے قبر والو ! مجھے بچاؤ! تیزی سے لپکتے ہوئے بزرگ اچانک ٹھٹھک کر رک گئے کیونکہ قبرستان سے تین سو (300) مردے اٹھ کر اسی “مدنے منے“ کی ڈھال بن چکے تھے اور وہ “مدنی منا“ دور کھڑا اپنا چاند سا چہرہ چمکاتا مسکرا رہا تھا۔ اس بزرگ نے بڑی حسرت کے ساتھ “مدنی منے“ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، بیٹا ! ہم تیرے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتے۔ اس لئے تیری مرضی کے آگے اپنا سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں وہ “مدنی منا“ کون تھا ؟ اس مدنی منے کا نام عبدالقادر تھا اور آگے چلکر وہ غوث الاعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرام کے لقب سے مشہور ہوئے اور وہ بزرگ ان کے ناناجان حضرت سیدنا عبداللہ صومعی علیہ رحمۃ اللہ القوی تھے۔ (الحقائق فی الحدائق)
بچپن کی چند کرامات
غوث الاعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرام مادر زاد ولی تھے۔
(1) آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ابھی اپنی ماں کے پیٹ میں تھے اور ماں کو جب چھینک آتی اور اس پر وہ الحمدللہ کہتیں تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ پیٹ ہی میں جواباً یرحمک اللہ کہتے
(2) آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ یکم رمضان المبارک بروز پیر صبح صادق کے وقت دنیا میں جلوہ گر ہوئے اس وقت ہونٹ آہستہ آہستہ حرکت کر رہے تھے اور اللہ، اللہ کی آواز آرہی تھی
(3) جس دن آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ولادت ہوئی اس دن آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے دیار ولادت جیلان شریف میں گیارہ سو بچے پیدا ہوئے وہ سب کے سب لڑکے تھے اور سب ولی اللہ بنے۔
(4) غوث الاعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرام نے پیدا ہوتے ہی روزہ رکھ لیا اور جب سورج غروب ہوا اس وقت ماں کا دودھ نوش فرمایا۔ سارا مہینہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا یہی معمول رہا
(5) پانچ برس کی عمر میں جب پہلی بار بسم اللہ پڑھنے کی رسم کیلئے کسی بزرگ کے پاس بیٹھے تو اعوذ اور بسم اللہ پڑھ کر سورہء فاتحہ اور آلم سے لے کر اٹھارہ پارے روشن پڑھ کر سنا دئیے۔ اس بزرگ نے کہا، بیٹے اور پڑھئے! فرمایا، بس مجھے اتنا ہی یاد ہے کیونکہ میری ماں کو بھی اتنا ہی یاد تھا۔ جب میں اپنی ماں کے پیٹ میں تھا اس وقت وہ پڑھا کرتی تھیں۔ میں نے سن کر یاد کر لیا تھا
(6) جب آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لڑکپن میں کھیلنے کا ارادہ فرماتے، غیب سے آواز آتی، اے عبدالقادر (رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ)! ہم نے تجھے کھیلنے کے واسطے نہیں پیدا کیا
(7) آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مدرسہ میں تشریف لے جاتے تو آواز آتی، “اللہ عزوجل کے ولی کو جگہ دے دو۔“ (کتب کثیرہ)
کرامت کی تعریف
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! بعض اوقات آدمی کرامات اولیاء کے معاملے میں شیطان کے وسوسے میں آکر کرامات کو عقل کے ترازو میں تولنے لگتا ہے اور یوں گمراہ ہو جاتا ہے۔ یاد رکھئے! کرامت کہتے ہی اس خرق عادت بات کو جو عقلاً محال یعنی ظاہری اسباب کے ذریعہ اس کا صدور ناممکن ہو مگر اللہ عزوجل کی عطا سے اولیائے کرام رحمہم اللہ تعالٰی سے ایسی باتیں بسا اوقات صادر ہو جاتی ہیں۔ نبی سے قبل از اعلان نبوت ایسی چیزیں ظاہر ہوں تو ان کو ارہاص کہتے ہیں۔ اور اعلان نبوت کے بعد صادر ہوں تو معجزہ